کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 220
بخشش اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘ صبر و ضبط کا ایک مثالی نمونہ اس کا بہترین نمونہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے پیش کیا جس میں قیامت تک آنے والی مسلمان عورتوں کے لیے بہترین سبق ہے۔ وہ ہے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ اُمِّ سُلَیم رضی اللہ عنہا۔ ان کا واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آتا ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں نقل کیا ہے۔ ہم اسے ریاض الصالحین ہی کے حوالے سے یہاں درج کرتے ہیں واقعہ تفصیلی ہے، اس لیے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، ابوطلحہ (جب کام کاج کے لیے) باہر چلے گئے تو بیٹا فوت ہوگیا۔ جب واپس آئے تو پوچھا: میرے بیٹے کا کیا حال ہے؟ (ان کی اہلیہ اور بچے کی ماں ) ام سُلَیم نے کہا: وہ پہلے سے کہیں زیادہ سکون میں ہے پس بیوی نے ان کے سامنے رات کا کھانا رکھا جو انھوں نے تناول فرمایاپھر بیوی سے ہم بستری کی۔ جب ابوطلحہ فارغ ہوگئے تو (بیوی نے بتلایا کہ بچہ تو فوت ہوگیا ہے)۔ اب اسے دفنا دو! جب انھوں نے صبح کی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سارا ماجرا بیان کیا آپ نے پوچھا: کیا رات کو تم نے ہم بستری کی تھی؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ان دونوں کے لیے برکت عطا فرما۔ (چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں، مدت مقررہ کے بعد) ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) مجھ سے ابوطلحہ نے کہا: ابوطلحہ حضرت انس کی والدہ ام سُلَیم کے دوسرے خاوند تھے، یعنی حضرت انس کے سوتیلے باپ تھے۔ ام سلیم کے پہلے خاوند حضرت انس کے والد، مالک بن نضر تھے جو اسلام لانے کے بجائے شام چلے گئے تھے اور وہیں فوت ہوگئے۔