کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 218
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا: زَمِّلُوْنِیْ، زَمِّلُوْنِیْ، ’’مجھے کمبل اڑھادو، مجھے کمبل اڑدھا دو۔ ‘‘
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اندازہ لگا لیا کہ آپ کی ساتھ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس سے آپ پر خوف اور دہشت کی کیفیت طاری ہوگئی ہے، اس موقعے پر ایک سمجھ دار خاتون کی طرح انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی خوبیوں کا تذکرہ کرکے فرمایا کہ آپ کے اندر تویہ یہ خوبیاں ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اچھا ہی معاملہ فرمائے گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
((کَلَّا، وَاللّٰہِ! مَا يُخْزِيكَ اللّٰہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِینُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ)) [1]
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی حزن و غم میں مبتلا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، تھکے ہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق (کی راہ میں آنے والے) مصائب پر مدد کرتے ہیں۔ ‘‘
دوسری تدبیر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ یہ ورقہ دور جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی زبان جاننے کی وجہ سے انجیل کی باتوں کا علم بھی رکھتے تھے، انھوں نے یہ ماجرا سنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا تھا تو انھوں نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اس طرح انھوں نے بھی آپ کو تسلی بلکہ خوش خبری دی کہ یہ تو وحی و رسالت کا وہ سلسلہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔
[1] صحیح البخاري: كتاب بدءالوحى، كيف كان بدء الوحى إلى رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، حدیث: 2