کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 214
سے فروتر ہو۔ تب بھی عورت کی سرتابی اور برتری جتلانے کی روش گھر کو برباد کر سکتی ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ عورت، عورت بن کر ہی رہے، مرد بننے کی کوشش نہ کرے، ماتحتی والی تواضع ہی اختیار کرے، حاکمانہ خوا بوں سے اپنے کو بچائے۔ ((من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ)) ’’جو اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دیتا ہے۔ ‘‘
14۔ کسی کے لیے بد دعا نہ کرے
عورت جِبّلی طور پر کمزور ہے اسی لیے اسے صنف نازک کہا جاتا ہے۔ اس فطری کمزوری کی وجہ سے عورت جلد ہی پریشان ہوجاتی ہے اور بد دعا دینے پراتر آتی ہے۔ بچوں نے پریشان کیا تو ان کو بد دعا دینی شروع کردی، خاوند کے رویے کی وجہ سے اس کو بد دعا دے دی، حتی کہ بعض دفعہ اپنے آپ کے لیے بھی بد دعا کر دیتی ہے۔ یہ طرز عمل يکسر غلط ہے، عورت کوہر موقعے پر صبر و تحمل، برداشت اور حوصلہ مندی سے کام لینا چاہیے اور زبان سے اپنے لیے یا بچوں کے لیے یا خاوند یا گھر کے کسی اور فرد کے لیے ایسے بد دعا کے الفاظ نہیں نکالنے چاہئیں کہ اگر وہ اللہ کے ہاں قبول ہوگئے تو عورت پچھتانے پر مجبور ہوجائے۔ اس لیے کہ اس کی بد دعا کے نتیجے میں اگر اولاد یا خاوند یا خود اسے نقصان پہنچے گا تو اس کا خمیازہ تو اس کو بھی بھگتنا پڑے گا، ظاہر بات ہے کہ یہ رویہ دانش مندی کے خلاف ہے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاَ تَدْعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ، وَلاَ تَدْعُوا عَلٰی أَوْلاَدِکُمْ وَلاَ تَدْعُوا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ،