کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 209
((أَحْنَاہُ عَلٰی وَلَدٍ فِی صِغَرِہٖ وَأَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہٖ)) [1] ’’اپنے بچوں پر جب کہ وہ کم عمر ہوتے ہیں، بڑی مہربان اور شفیق اور اپنے خاوندوں کے معاملات میں ان کے مفادات کا بہت خیال رکھنے والی۔ ‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے جس میں گھریلو امور سر انجام دینے کے علاوہ، مزید دو ذمے داریوں کا بوجھ بھی اس نے اٹھانا ہے۔ ایک بچوں کی حفاظت، جس میں حمل سے لے کر رضاعت تک اور اس کے بعد بھی بدوِ شعور تک کے مراحل ہیں۔ دوسرے خاوند کی خدمت و اطاعت۔ گویا عورت نے بہ یک وقت تین خدمات سر انجام دینی ہیں : 1۔ امور خانہ داری۔ 2۔ بچوں کی پرورش و نگرانی۔ 3۔ خاوند کی خدمت اور اس کی خواہشات کی تسکین۔ یہ تینوں خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے شب و روز کے تمام لمحات اس میں صرف ہوجاتے ہیں یوں وہ پورے طور پر مرد کی شریک زندگی بن کر مرد کو سکون مہیا کرتی ہے جس کی وجہ سے مرد گھریلو معاملات سے بے فکر ہو کر یکسوئی سے کسب معاش میں مصروف رہتا ہے۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے عورت کو کسب معاش کے جھمیلوں میں ڈالنا پسند نہیں کیا ہے کیونکہ یہ دوہری ذمے داری ہوتی کہ وہ گھر کا سارا انتظام بھی سنبھالے اور گھر کا نظام چلانے کے لیے سرمایایہ بھی مہیا کرے۔ یہ ظلم ہے اسلام نے عورت کو اس ظلم سے بچایا اور کسب معاش کا مکمل ذمے دار مرد کو قرار دیا ہے۔
[1] صحیح البخاري: كتاب النفقات، باب حفظ المرأة زوجها فى ذات يده والنفقة، حدیث: 5365