کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 208
ہے کہ وہ گھر میں ایسے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ دے جس کو خاوند ناپسند کرتا ہو۔ اس حدیث کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر میں خاوند کے قریبی رشتے دار چھوٹے بڑے بھائی (عورت کے دیور، جیٹھ) اور اسی طرح عورت کے قریبی رشتے دار، اس کے ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد، (جن کو آج کل کزن کہا جاتا ہے) سے بھی پردے کا اہتمام کرے، ان سے بے تکلف نہ ہو۔ ان سے زیادہ بے تکلفی، قربت اور بے پردگی نہایت خطرناک ہے جس سے اس کی عصمت کی ردائے تقدس بھی تار تار ہوسکتی ہے۔ اس لیے حدیث میں دیور، جیٹھ وغیرہ کو موت قرار دیا گیا ہے۔ 6۔ خاوند کے مال میں بے جا تصرف نہ کرے ایک اور صفت اس حدیث میں یہ بتلائی گئی ہے کہ عورت خاوند کے مال میں ایسا تصرف نہ کرے جو خاوند کو ناپسند ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ فضول خرچی سے اور اسی طرح غیر ضروری چیزوں میں پیسے خرچ کرنے سے اجتناب کرے اور ہر وقت مرد کی آمدنی کو سامنے رکھے اور اس کے مطابق ہی اپنا بجٹ بنائے اور اسی دائرے میں رہ کر ہی سب کچھ خرچ کرے۔ حتیٰ کہ صدقہ و خیرات بھی اسی دائرے میں رہ کر کرے تاکہ خاوند کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو اور اگر کہیں صدقہ و خیرات زیادہ کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو خاوند سے مشورہ کرے اور اس کی اجازت کے بغیر اس طرح طاقت سے زیادہ صدقہ و خیرات نہ کرے جس سے گھریلو بجٹ متأثر ہویا خاوند کے لیے مشکلات کا باعث ہو۔ 7۔ بچوں پر نہایت مہربان، خاوند کے مفادات کا خیال رکھنے والی ایک حدیث میں بہترین اور صالح ترین عوت کی یہ دو صفات بیان ہوئی ہیں :