کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 206
سے نوازا گیا ہے، دوسری کا تعلق کسبی صفت سے ہے کہ مرد محنت کرکے عورت کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے (مہر، نان نفقہ اور دیگر ضروریات مرد کے ذمے ہے) جو عورت صالحہ، قانتہ ہوتی ہے وہ اس حقیقت کو سمجھتی ہے اور مرد کی شکر گزار اور فرماں بردار بن کر رہتی ہے اور جو صالحہ قانتہ نہ ہو، وہ عدم اطاعت اور ناشکری کا راستہ اختیار کرکے فطرت سے جنگ کرتی ہے، اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے تعلقات میں جو ناہمواری اور ناخوش گواری پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا حل یہ بتلایا ہے کہ: 1۔ اس کو وعظ و نصیحت کی جائے، اس کو اللہ سے ڈرایا جائے۔ 2۔ یہ کار گر نہ ہو تو مرد رات کو اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور رات کی حد تک علیحدگی اختیار کر لے۔ 3۔ یہ علیحدگی بھی اس کوسمجھنے پر آمادہ نہ کرے تو اس کو ہلکی سے مار مار لے جس سے اس کے کسی عضو کو نقصان نہ پہنچے۔ کیونکہ اس تادیب (سرزنش) سے مقصود اس کی اصلاح ہے نہ کہ اس کو جسمانی نقصان پہنچانا۔ 4۔ اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر خاندان کے لوگوں کو صورت حال سے مطلع کرکے دوحَکَم(ثالث) مقرر کیے جائیں، جو دونوں کی باتیں سن کر اس کی روشنی میں ان کا فیصلہ کریں۔ اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ نیک عورت کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ناشزہ نہ ہو یعنی وہ خاوند کی فرماں بردار ہو نہ کہ اس کو اپنا فرماں بردار بنانے والی۔ گھر میں اس کی بالا دستی کو تسلیم کرنے والی ہو نہ کہ اپنے کو بالا دست سمجھنے والی، خاوند کی بن کر رہنے والی ہو نہ کہ خاوند کو اپنا بنا کر رکھنے والی اور خاوند کے حق کو سمجھنے والی اور اس کو ادا کرنے والی