کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 202
ہوگی جب تک دنیا میں ان کاا ازالہ نہیں کر لیا جائے گا ورنہ روز قیامت ان کوتاہیوں کی تلافی آپ کی نیکیاں ان میں تقسیم کرکے کی جائے گی، پھر بھی نہیں ہوگی تو ان کے گناہ آپ کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ اس کا جو نتیجہ ہوگا، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اعاذنا اللّٰہ منہ
17۔ جس طرح مرد کے لیے ہم بیان کر آئے ہیں کہ عورت جس طرح شب و روز گھریلو معاملات سر انجام دیتی ہے اور صبح سے رات تک کام میں جتی رہتی ہے بلکہ رات کو خاوند کی خدمت اور خواہش پوری کرنے میں بھی خوش دلی سے تعاون کرتی ہے، مرد کو چاہیے کہ اس کی ان خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور مزید محنت سے گھر کو چلانے اور سنوارنے کا جذبہ بھی قوی اور توانا ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ مرد گھر کا انتظام کرنے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے میں گھر سے باہر رہ کر جو محنت اور جدو جہد کرتا ہے، اس میں وہ اپنے آرام و راحت کی بھی پروا نہیں کرتا تاکہ گھر والوں کو آرام و راحت نصیب ہو، وہ مرد کی ان خدمات کا اعتراف کرے اور اس کے لیے جذباتِ تشکر کا اظہار کرے۔ یہ شرعاً بھی ضروری ہے اور دنیوی لحاظ سے بھی اس کے بڑے فوائد ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ)) [1]
’’جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ ‘‘
مذکورہ چند خصوصیات تو وہ ہیں جو مرد اور عورت دونوں میں ہونی چاہئیں۔ یہ گویا اقدار
[1] جامع الترمذي، البر والصلۃ، حدیث: 1955