کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 199
اختیار کرتے ہیں یا ان میں شرکت کرتے ہیں۔
٭ جیسے گپ شپ کی محفلیں۔
٭ چغلی اور بد گوئی کی محفلیں۔
٭ بدعات کی محفلیں اور بدعی کام۔
٭ شادی بیاہ کی بہت سی رسومات، جیسے مہندی، ڈھولکی وغیرہ۔
٭ کھیلوں کے میچ، جن کو گھنٹوں ٹی وی پر دیکھا جاتا ہے۔
٭ فحش ڈرامے، فلمیں اور اسی طرح کے دیگر بہت سے پروگرام۔
٭ شطرنج، تاش، لڈو وغیرہ اور آج کل کے بعض جدید کھیل۔
٭ عشقیہ اور جاسوسی ناول اور افسانے، کہانیاں وغیرہ۔
اور اس طرح کی متعدد سرگرمیاں اور حرکتیں۔
یہ سب تقاضائے ایمان کے خلاف ہیں۔ مومن مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، ان پڑھ ہو یا تعلیم یافتہ، سب کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور وہی کام کرنے چاہئیں جن کا کوئی دینی یا دنیوی فائدہ اور شریعت میں ناپسندیدہ نہ ہو۔
علاوہ ازیں ٹیلی ویژن اس دور کی ایسی شیطانی ایجادہے جو متعدد خرابیوں اور نافرمانیوں کا مجموعہ ہے، ان سے معصوم بچوں کے اخلاق و کردار بھی بگڑتے ہیں، بچے دین سے دور ہوتے ہیں، ان کی پڑھائی میں اس سے بہت خلل پڑتاہے، بچوں کی آنکھیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں، وقت کا ضیاع ہوتا ہے، اس کی وجہ سے راتوں کو دیر سے سونا اور صبح دیر سے اٹھنا معمول بن جاتا ہے جس سے نمازیں بالخصوص فجر کی نماز اکثر ضائع ہوجاتی ہے۔