کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 197
ہوجاتے ہیں لیکن وہ دین و شریعت سے نا آشنا اور احکام و فرائض اسلام سے بیگانہ اور غافل رہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کی دنیا کی چند روزہ زندگی تو آرام و راحت سے گزر جائے گی، لیکن ان کی آخرت کی دائمی زندگی جو برباد ہوجائے گی، اس کی ذمے داری سے والدین کو کس طرح بری قرار دیا جا سکے گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے بچے قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں یہ عرض کریں جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھینچا ہے۔ ﴿ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا o وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا Oرَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ﴾ [الأحزاب68۔ 66] ’’جس دن آگ میں ان کے چہرے الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی، اور ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ اور وہ کہیں گے:اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی، تو انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ اے ہمارے رب! ان کو دو گنا عذاب دے اور ان پر بڑی سخت(اور زیادہ) لعنت کر۔ ‘‘ 13۔ اسلام میں فرصت کے اوقات کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے ذکر میں، تلاوت قرآن میں، نوافل میں اور اسی طرح کے دیگر نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کا حکم ہے کیونکہ انسانی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان لمحات کو لا یعنی مصروفیات میں، لغویات میں اور بے ہودہ لہو و لعب میں برباد کردینا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے: ))نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ، الصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ))[1] ’’دو نعمتیں ہیں جن کی قدرو قیمت کو نہ سمجھنے والے لوگ زیادہ ہوں گے اور پھر
[1] صحیح البخاري: كتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، حدیث: 6412