کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 196
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾ [التحریم6]
’’اے ایمان والو! تم اپنے کو بھی اور اپنے اہل (گھر والوں ) کو بھی آگ سے بچاؤ۔ ‘‘
اسی طرح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ))
’’تم سب کے سب نگران اور رکھوالے ہو اور تم سب سے ان لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا جن کے تم نگران اور رکھوالے ہو۔ ‘‘
اسی حدیث میں آگے فرمایا:
’’امام اعظم (خلیفۂ وقت) لوگوں کا رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعیت (اہل خانہ) کی بابت پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے ان کی بابت پوچھا جائے گا......۔ ‘‘ [1]
قرآن کریم اور فرمان رسول کی رو سے جس طرح میاں بیوی دونوں کو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے، اسی طرح دونوں کی یہ ذمے داری بھی ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کا اور احکام شرعیہ کا پابند بنائیں تاکہ وہ بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔
جو والدین اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم کا، ان کی پوشاک و خوراک کا، ان کی پر آسائش رہائش کا اور دیگر تمام ضروریات کا اپنی طاقت کے مطابق اہتمام کر تے ہیں جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں یا تجارت و کارو بار میں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں سے بہرہ ور
[1] صحیح البخاري: كتاب الأحكام، باب قول اللّٰه وأطيعوا اللّٰه و أطيعوالرسول، حدیث: 7138