کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 191
2۔ حسن معاشرت کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے عرض کیا گیا تھا کہ مرد کسی بھی بات یا مسئلے کو انا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی یہی راستہ بہتر بلکہ مرد کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے۔ عورت کسی بھی مسئلے میں نہ اپنی رائے پر اصرار کرے اور نہ اسے انا کا مسئلہ بنائے۔ بلکہ خاوند کے قدم بہ قدم چلے۔ بالخصوص جب بچے جوان ہوجائیں تو ان کے رشتوں کے معاملے میں بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے، عورت اپنے رشتے داروں میں اور مرد اپنے رشتے داروں میں رشتہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے موقعے پر کوئی بھی اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے، نہ رشتے داریوں کو دیکھا جائے بلکہ ایک تو شرعی معیار کو سامنے رکھا جائے، دوسرے بچے، بچی کے جذبات اور ان کی پسند کا خیال رکھا جائے۔
3۔ خرچ کے معاملے میں عرض کیا گیا تھا کہ مرد نہ بخل کا ارتکاب کرے اور نہ فضول خرچی کا، بلکہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کرے۔ عورت کو بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر اخراجات اس کے ہاتھ میں ہوں تب بھی اور اگر خاوند کے ہاتھ میں ہوں تب بھی۔ اور وہ اس طرح کہ وہ مرد کو فضول خرچی یا بخل پر آمادہ نہ کرے۔ فضول خرچ عورت کے ناجائز مطالبات اکثر و بیشتر مردوں کو حرام ذرائع آمدنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ عام طور پر جو لوگ کہتے ہیں کہ تنخواہ میں یا حلال آمدنی میں گزارا نہیں ہوتا، اس لیے رشوت یا ملاوٹ کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے پیچھے ایمانی کمزوری کے علاوہ ایسی ہی بیویاں ہوتی ہیں جو شوہر کی آمدنی کو دیکھے بغیر آئے دن ایسے مطالبات کرتی رہتی ہیں جو غیر ضروری ہوتے ہیں اور جن کو صرف حلال آمدنی سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔