کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 19
اس معاشرے نے عورت کو بے لباس کرکےہوس پرستوں کےساتھ بٹھادیاپھر کہا کہ خبردار عزت ہاتھ سےنہ جانےپائے۔
مغربی فکر اور نظریات کو جب اسلامی معاشروں میں ہمنوائی ملی تواس سے فحاشی وعریانت کا فلسفہ ہی بدل گیا۔ جس کی تصویر ایک لکھاری نے ان الفاظ میں کھینچی ہے :
’’ اگر خواتین کا ناچ ناچ کے دودھ بیچنا، نہاتا ہوا دکھا کے صابن شیمپو بیچنا، لیٹ لیٹ کے صابن شیمپو بیچنا ’’ لگے رہو ساری رات ‘‘ بول کے انٹرنیٹ پیکج بیچنا، بیڈ پہ سوتا ہوا دکھا کے میٹریس بیچنا، لڑکوں کی ہیئر جیل، پرفیوم اور باڈی سپرے پہ مرتا ہوا دکھانا ’’واؤ سموتھ ‘‘ کہتے ہوئے مرد کی شیونگ کریم اور ریزر بیچنا، ٹانگوں سے کپڑا ہٹا کے ’’ نرم وملائم ‘‘ سکن دکھا کے ہیئر ریمونگ کریم بیچنا۔ اگر یہ سب فحاشی اور عریانی نہیں ہے تو مبارک باد دیں حکمرانوں کو اور میڈیا کو جنہوں نے آپ کا لائف سٹائل تو مغرب جیسا نہیں بنایا مگر لاکھوں میل دور آپ کا تھنکنگ سٹائل ضرور ان جیسا کردیا ‘‘۔
اس کے برعکس اسلام نے عورت کو جو تحفظ دیا وہ کسی مذہب، فکر اور فلسفہ میں موجود نہیں ہے۔ اسلام نے ہی عورت کو جدید معاشرے میں بھی اس کا صحیح مقام دیا ہے۔ بھائی، باپ، بیٹے شوہر کی صورت میں اسے مستقل محافظ مہیا کئے۔ عورت چاہے ماں ہو، بہن ہو یا بیوی یا بیٹی اسلام نے اس کو جو تقدس وعزت دی اس نعمت کا ادراک وہی کرسکتاہے جس نے سکے کے دونوں رخ دیکھے ہوں۔ اسلام حقوق کے باب میں برابری کا نہیں بلکہ عدل کا ضابطہ متعین کرتاہے۔ برابری یہ کہتی ہے کہ عورت بھی کمائے اور مرد بھی جبکہ عدل کہتاہے کہ عورت کمائے گی تو اس پر ظلم ہوگا اس کی ساکھ مجروح ہوگی اسے بری نظروں کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا اس کے