کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 187
4۔ ﴿إنِ اتَّقَیْتُنَّ﴾کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں، متقی عورتوں کے لیے ہیں کیونکہ انھیں ہی یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں ؟
5۔ ’’گھروں میں ٹک کر رہو۔ ‘‘ اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو، اس میں وضاحت کردی گئی کہ عورت کا دائرۂ عمل امور سیاست و جہانبانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں بلکہ گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر امور خانہ سر انجام دینا ہے۔
6۔ پھر گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے جس سے تمھارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ جیسے بے پردہ ہو کر نکلو جس سے تمھارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو۔
7۔ ’’تَبَرُّج‘‘ بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا، یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما اور دل فریب رکھ لیا جائے۔ برائی سے اجتناب کی ہدایات کے بعد نیکی اختیار کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں لیکن ضمناً ’’اہل بیت‘‘ کی وضاحت بھی فرمادی کہ اس سے مراد کون ہیں ؟
8۔ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے کہ ازواج مطہرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو {اہل البیت}کہا گیا ہے۔ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت