کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 180
افکار پراگندہ اور جن کے دل سخت بے چینی کا شکار ہیں اور گراوٹ کا یہ اونچا تناسب… جس کے کل اعداد و شمار کو مغربی ماہرین نے فراہم کیا ہے اس کے اندر بے راہ روی اور کجی اپنے پورے رنگ اور پوری نوعیت کے ساتھ جھلکتی نظر آتی ہے یہ مظاہر اور آثار اس تجربہ کے آئینہ دار ہیں جو یورپ نے عورت کے اوپر اب تک کئے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نئی نسل تمام تر انھی مزدور اور ملازم پیشہ خواتین کی اولاد ہیں، جنھوں نے ماں کے پیٹ سے مشقت اور کام کے دباؤ کو محسوس کیا ہے۔ اور جب انھوں نے جنم لیا تو یہ ان کی سستی، غفلت اور بے توجہی کا شکار ہوئے۔ اس تجربے کے ناکام ہونے کے بعد کیا پھر کوئی کسی قسم کے تجربے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کیا لوگ اب بھی غور و فکر نہیں کریں گے؟ عورتوں کے ان نام نہاد حمایتیوں کے پاس ان کے گمان کے مطابق جو دلیل اور ثبوت ہیں جن کی بنیادیں تمام تر مغالطے پر مبنی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے جو وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے گھر میں رہنے سے تقریبا آدھا سماج معطل اور بیکار ہو کر رہ جائے گا۔ گویا ان کے کہنے کا منشا یہ ہے کہ عورت کے لیے گھر میں کوئی کام نہیں ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ عورتوں کی گھریلو ذمہ داری، شوہر کی نگہداشت اور خدمت، بال بچوں کی تربیت اور پرورش اور ان کی طرح طرح کی ضروریات کی تکمیل بذات خود اتنی اہم ہوتی ہے جو عورتوں کا پورا وقت لے لیتی ہے بشرطیکہ عورت کما حقہ اس فریضہ کو انجام دے۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرائض کی تکمیل کے لیے پھیلا ہوا وقت بھی تنگ پڑ جاتا ہے۔ ہمارے اس دعوے پر مسکت دلیل جو مخالف کو تقریباً خاموش کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ کام کرنے والی مزدور خواتین ہمیشہ یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ جو کام وہ نہیں کر سکتیں ان کی تلافی کے لیے کچھ مرد یا عورت ملازم رکھ لیے جائیں۔ ظاہر ہے اس صورت میں حکومت کی آمدنی میں کون سی ایسی کمائی