کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 179
رکھا جائے۔ سچ پوچھئے تو ایک مرد جو گھر کے باہر کام کرتا ہے اور محنت و مشقت کے بعد تھک کر چور ہوجاتا ہے، اسے ایسی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے جو آراستہ و پیراستہ ہو، خوشبو میں بسی ہوئی ہو، آسودہ حال اور فارغ البال ہو، جس سے مرد سکون حاصل کرے اس کی قربت سے اس کی تھکن کافور ہو، پژمردگی اور اس کی ایک ایک پریشانی کا ازالہ ہو۔ لوگوں کے ساتھ مصروف رہ کر تنگی اور شکر رنجی جو طبیعت میں بس جائے اور جس اکتاہٹ کا وہ شکار ہو اس سب کا خاتمہ ہو۔ اس کے بجائے اگر عورت نے محنت مشقت کے میدان میں قدم رکھا تو شوہر اور بال بچوں کی رعایت وہ بھلا کیسے کرے گی اس لیے کہ کام کے بعد وہ بھی تھک کر چور لوٹے گی جیسے ابھی ابھی مرد لوٹا ہے۔ اب تھکا ہوا تھکے ہوئے سے کس طرح تسلی پا سکتا ہے؟ ان میں سے کس کا دل گردہ ہے جو بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کرے، ان کی تربیت اور انہیں خوش رکھنے کے پِتّہ مارنے والے کام کو باآسانی انجام دے سکے۔ اور اگر خدا نخواستہ مرد وزن نے یہ وطیرہ اختیار کر لیا تو ان کی زندگی کا بس اللہ ہی نگہبان ہے۔ اس صورت میں ان کی زندگی اذیت و تکلیف اور بد بختی کا دوسرا نام ہوگی، اور پھر سماج کے یہ افراد خواہ مرد، عورت ہوں یا جوان اور بچے ہوں، ان کی حیثیت زندگی کی مشینری میں ان بے جان کل پرزوں کی سی ہوگی جن کی قسمت میں سکون اور ٹھہراؤ نہیں۔ ان کا کام بس چلتے رہنا اور گھستے رہنا ہے۔ ہر بصیرت اور ادنیٰ شعور رکھنے والا اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ اس پہلو سے آج امریکن اور یورپین سماج پر ذلت اور ناکامی کے آثار چھائے ہوئے ہیں اور ابھی تو یہ آثار اور بھی گہرے ہوں گے اس لیے کہ تمام خرابیاں ابھی جڑ تک نہیں پہنچیں۔ بہر کیف یورپ کی موجودہ ذلت کی ماری نئی پود کا تعلق ایسے ماں باپ سے ہے، جو حیران و پریشان اور گم کردہ راہ ہیں جن کے اعصاب ٹوٹ چکے ہیں، جن کے