کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 178
عورتوں مردوں کے اندر اس یورش اور بغاوت کی غر ض صرف یہ ہے کہ ان کے اندر سکون اور چین کے بجائے کشمکش، اضطراب اور بے چینی پیدا کی جائے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر دو کے اندر محبت اور رأفت و رحمت پیدا ہو، تاکہ کائنات کی آباد کاری اور نسل انسانی کی حفاظت اور بقاکا مرحلہ آسان ہو۔
صحت مند سماج کی بنیاد ہی ہمیشہ باہم میل محبت، رحم دلی اور سچائی پر مبنی ہوتی ہے۔ تاکہ سماج کا ہر فرد خوشی خوشی اپنا فرض منصبی انجام دے سکے۔ اسے کسی اکتاہٹ اور بے چینی کا احساس نہ ہو۔ سماج کی حالت ایک جسم کی ہوتی ہے جس کا ہر عضو اپنا کام کرنے اور اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اگر ایک عضو بھی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے رک جاتا ہے تو پورا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ کی بے عیب اور بلند ذات بابرکات ہے جس نے ہر چیز کو مناسب طریقے سے پیدا فرمایا، پھر اسے راستہ پر لگا دیا۔ اسی نے ایک ایک فرد کو اور کائنات کے ذرے ذرے کو خواہ وہ حیوانات و نباتات یا جمادات ہوں، یا کوئی اور ہوں، غرض سب کو خاص کاموں کے لیے پیدا کر رکھا ہے۔ ان کے اندر مناسب طبیعتیں بنائی ہیں اور انھی کاموں کا انھیں خوگر بنا ڈالاہے۔ ہماری موجودہ اور نئی سے نئی زندگی اپنے ہر میدان میں بس اسی شاہراہ پر گھومتی ہے علم و حکمت کا صیغہ ہو، یا صنعت و حرفت کا کل پرزہ ہو۔ آج ہر پہیہ بڑی باریکی، نزاکت اور صفائی کے ساتھ اسی ڈگر پر گھوم رہا ہے جہاں اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ترقی و تربیت کے جدیداصول اس کے لیے کوشاں ہیں کہ تحقیق و جستجو کے بعدبچوں اور بچیوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، تاکہ ہر کوئی اپنے تکوینی فرائض اور مخصوص ذمہ داریوں کو انجام دے سکے۔ جب دیگر عناصر کے لیے اس قسم کی تخصیص اور مناسب کارکردگی کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مردوں عورتوں کے لیے اس کے مخالف کوشش کی جائے اور ان کے تکوینی کاموں سے انہیں علیحدہ