کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 177
سکتی۔ اس کے بعد جب اسے حمل ٹھہرتا ہے تو قرار حمل کے ابتدائی دنوں میں اسے کافی تکالیف اور متعدد بیماریاں آگھیرتی ہیں۔ حمل کے آخری دنوں میں اس کی حالت کبھی ایسی ہوجاتی ہے جیسے اس کا بدن ٹوٹ کر شل ہوگیا ہو۔ پھر ایک مزدور عورت اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کا المیہ یہ ہے کہ اسے مناسب شوہر کی تلاش ہوتی ہے، وہ یہ کوشش کرتی ہے کہ ایسی ہر جگہ سے صاف بچ کرنکل جائے، جہاں اس کی نگاہیں خیرہ اور نظریں چکا چوند ہوتی ہوں۔ اور بچ کر یہ نکل جانا کبھی اس کے لیے نئے شوہر کی تلاش سے زیادہ خطرناک اور مشکل ہوجاتا ہے۔ عورت کے ان دوست نما دشمنوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ عورت کا گھر بیٹھے رہنا اس کے حقوق کو تلف کرنے اس کی شخصیت کو ختم کرنے اور اس کے وجود کو تہس نہس کر دینے کے برابر ہے۔ حالانکہ جیسے زنگی کو الٹے کافور کہاجاتا تھااسی کے مصداق یہ بھی ہوگا کہ جو محفوظ ہو جس کی خدمت کی جائے اور جس کی ایک ایک ضرورت پوری کی جائے ایسی ذات کو آزادیٔ نسواں جیسی کتابوں کے مصنف کی طرح ہم قیدی اور نظر بند کا نام دینے لگیں۔ حالانکہ یہ واقعہ ہے کہ ایک عورت پردے کے پیچھے رہ کر بھی باعزت، شان و شوکت والی اور اپنے شوہر پر حکومت کرنے والی ہوتی ہے۔ اسے کسی دن یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کے حقوق پامال کیے گئے ہیں یا وہ مظلوم و مجبور ہے، یا قیدی اور نظر بند ہے یا اس کی عزت نفس داغدار اور شخصیت مجروح ہوچکی ہے۔ بلکہ اس قسم کی نفرت کا مظاہرہ آئے دن انھی اہل قلم لوگوں کی تحریروں سے ہوتا ہے جو نام نہاد ’’حقوق نسواں ‘‘ کابینر لگا کر نکل پڑے ہیں۔ اس ذہنیت کا شکار صرف مرد ہیں عورتیں ان کے ساتھ قطعی شریک نہیں ہیں۔ اور ان کا مقصد مرد وزن دونوں کی زندگی بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر زندگی تو در حقیقت سکون و اطمینان کا نام ہے جس میں لوگ اپنے لیے برکت اور ثابت قدمی کی راہیں تلاش کر سکیں۔ جب کہ اس نام نہاد تحریک کی پیدا کردہ