کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 176
عورت کو چھاتی اس لیے نہیں دی کہ نائٹ کلبوں میں اس کا مظاہرہ کیا جائے اور سڑکوں اور شاہراہوں پر اپنے حسن و جمال کی نمائش کی جائے۔ بلکہ اس کی تخلیق کا اصل مقصد یہی شیر خوارگی ہے پھر شیر خوارگی کا یہ عمل صرف ایک عضو کا استعمال نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے شفقت مادری اور مضبوط عہد و پیمان کا رشتہ ہوتا ہے اور آج شیر خوارگی کے ان مصنوعی طریقوں کو دیکھ کر یہ اندیشہ ہوتا محسوس ہے کہ خدا نخواستہ مستقبل میں ایسے طریقے نہ ایجاد کر لیے جائیں جن میں مرد کے نطفہ کو ماں کے رحم سے ہٹا کر کہیں اور اس کی پرورش کی جائے تاکہ عورت کو حمل کی مشقت اور خوبصورتی کے زائل ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔
اس صدی کے آغاز میں اٹھنے والی تعلیم نسواں کی تحریک ابتدا میں بکثرت اس بات کا پروپیگنڈہ کرتی تھی کہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ عورت خود بھی تعلیم و تربیت یافتہ ہو۔ لیکن جب عورت زیور تعلیم سے آراستہ ہوئی تو یہ تحریک اپنا پچھلا پروپیگنڈہ خود بھول گئی یا بھلا دی گئی۔ اور اب وہ یہ کہنے لگے کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ مردوں کی طرح خود بھی کام کرے۔ ظاہر ہے ان کا یہ عمل ان کے پچھلے پروپیگنڈے کے اندر موجود کھوٹ کی غمازی کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس پروپیگنڈے اور مشن کے پیچھے کون سے اغراض و مقاصد کار فرما تھے جو ان کے قول و فعل کے تضاد کا باعث بنے۔
علاوہ ازیں ہم چاہیں توعورتوں اور خود اپنے آپ کے دشمن ان لوگوں کو جنھیں اخبارات اور رسالے عورتوں کے نام نہاد حامی اور معاون لکھتے آرہے ہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو! عورت محنت کی عادی نہیں نہ ایسے تمام کاموں کو وہ انجام دے سکتی ہے جنھیں مرد کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ کیونکہ تکوینی طور پر عورت مہینہ میں کم و بیش ایک ہفتہ حیض سے ہوتی ہے۔ یہ حالت قریب قریب مرض کی حالت ہے۔ جس کے تحت عورت روز مرہ کے بہت سارے کام حسب معمول انجام نہیں دے