کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 175
حیوان کی صفت میں کھڑا کر دینے کے مترداف ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ غذائی پرورش کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ اخلاقی اور ذہنی نگہداشت اور پرورش کے ذریعہ بھی اپنے اوصاف کو بچے کے اندر منتقل کرتا ہے۔ جب کہ حیوان اس جوہر سے یکسر خالی ہوتا ہے۔ انسانی ترقی اورحیوانوں سے اس کے افضل ہونے کا یہ بھی ایک سبب ہے۔ اس طریقہ سے نئی نسلیں اپنی پیش رو نسلوں سے تجربے حاصل کرتی ہیں علم و آگہی کا سبق سیکھتی ہیں جس سے وہ اپنا فرض کما حقہ انجام دیتے ہیں۔ اور تجربے کرنے میں جو وقت اور محنت صرف ہوتی ہے انھیں اس سے نجات مل جاتی ہے۔ اور اگر کسی عورت نے خود ان کاموں کو انجام دینے کی بجائے اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش کے لیے اپنے نوکروں اور خادموں پر اعتماد کیا، تو ان کی ترقی رک جائے گی۔ کیونکہ ماں جس قدر توجہ اور سر گرمی سے اپنے بچوں کے لیے وقت صرف کر سکتی ہے، جتنے اخلاص اور درد مندی سے وہ کام کر سکتی ہے، اس کا سواں حصہ بھی اس کے علاوہ کسی اور میں نہیں پایا جا سکتا کیونکہ ماں کے اخلاص اور پرورش کی شدید خواہش کے پیچھے اس کے ممتا بھرے جذبات ہوتے ہیں اور اس معاملہ میں نوکروں اور ماتحتوں پر اعتماد کرنے سے تربیت اور پرورش کا وہ پہلا معیار قطعاً برقرار نہیں رہ سکتا۔ خواہ نوکروں سے کتنی ہی اعلیٰ درجے کی خدمت لی جائے۔ خواہ ترقی اور کمال کے لیے بڑے سے بڑا وسیلہ اختیار کیا جائے اور ان خیانتوں اور سستی اورغفلت سے صرف نظر کیا جائے، جس کا نوکروں کی طرف سے روز مرہ کی زندگی میں بارہا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اور آج جو دفاتر میں کام کرنے والی ماؤں نے اپنا دودھ پلانے کی بجائے مصنوعی طریقہ استعمال میں لانا شروع کر رکھا ہے ہماری نظر میں یہ امانت میں خیانت، حدود سے تجاوز اور سنت الٰہیہ کو بگاڑ دینے کے مترداف ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے