کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 174
اور طبیعت پرپڑتا ہے جن عورتوں کو حمل کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے، پیٹ کے اندر بچے کی حفاظت اور پیدائش کے بعد ان کی تربیت اور نگہداشت جن کے ذمہ عائد ہوتی ہے، ایسی تمام خواتین کے لیے ضروری ہے کہ اعصابی ہیجان سے دور رہیں اور کوئی مشقت کا ایسا کام نہ کریں جس سے عضلات اور دماغ سخت تکان کا شکار ہوجائے۔ ورنہ اس کے اثرات زیر پرورش پیٹ کے بچے یا شیر خوار پر گہرے اور بد ترین پڑیں گے اور تادیر باقی رہیں گے۔ ظاہر ہے اس ذمہ داری کو سنبھالنا بھی اہم فریضہ اور جانگسل مشغلہ ہے جس میں نسل انسانی کی بقا افزائش اور ترقی مضمر ہے۔ اس مرحلہ سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اہلیہ اپنے بچوں پر کامل توجہ صرف کرنے کے لیے پوری طرح فرصت سے رہے، اپنے جسم، عقل اور اپنی عادات و اطوار کو اس طرح قابو میں رکھے کہ تندہی سے ان بچوں میں اعلیٰ تعلیم اور اخلاق اورنیک کردار کا بیج بو سکے اور بری عادت سے انھیں بچا سکے۔ اور یہ کام ایک دو بار حکم دینے یا منع کرنے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مسلسل نگرانی کڑی توجہ اور پوری دیکھ بھال ضروری ہے تاکہ بچوں کے اندر یہ صلاحیتیں راسخ ہوجائیں۔ بچوں کو کسی غلط کام پر پے در پے ٹوکنا اور مسلسل اس کے لیے بیدار ہونا بھی طبیعتوں میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کاسبب بنتا ہے۔ یہ نگرانی جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی، صبر اور ثابت قدمی سے اس پر عمل کیا گیا اور کسی قسم کی اکتاہٹ روا نہ رکھی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑ پکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی اور ان کا علاج مشکل نہ ہوگا۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ بچہ صرف حمل یا شیر خوارگی کے دوران ہی اپنی ماں کے اثرات کو قبول کرتا ہے اور اس سے ربط قائم رکھتا ہے، تو ظاہر ہے یہ نظریہ انسان کو