کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 173
ہے، اس کی افادیت کے پیش نظر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں اسے پیش کرتے ہیں۔
’’بعض نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کا خانگی اور گھریلو کام آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا دن بھر صرف انہی کاموں کے لیے فارغ رہنا ایسا ضروری نہیں ہے۔ یہ گمان جہالت پر مبنی ہے اس لیے کہ بچوں کی تربیت جیسی اہم ذمے داری جب تک عورت کے کاندھے پر ہوتی ہے اس کے لیے فرصت ضروری ہے تاکہ اپنی ذمے داری کو حدیث میں بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق نباہنے کے لیے اسے کچھ پڑھنے اور بکثرت مشاہدے کا موقع ملے۔ مزید برآں اسے اپنا ذہن یکسو اور دل کو مطمئن رکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے تاکہ ایسےزوردار ثر احساس اور تیز جذبے سے محفوظ ہو جس کا راست اثر پیٹ کے اندر یا دودھ پینے والے بچے پر پڑتا ہے اور بد ترین اندیشہ سامنے آتا ہے۔ علم نفسیات کے تجرے اور مشاہدے سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین لکھتے ہیں :
’’یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ عورت کا پہلا کام یعنی بچہ پیدا کرنا اور نسل انسانی کی حفاظت کرنا ایسا عمل ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا۔ مرد کے جسمانی اعضاء کی بناوٹ پیٹ میں بچہ پالنے یا دودھ پلانے کے لائق ہرگز نہیں ہوتی۔ اب اگر عورت کو شدت سے کام میں جوڑ دیا جائے تو ظاہر ہے اس کے دل و دماغ اور اعصاب پر اس کا اچھا اثر مرتب نہیں ہوگا۔
نیز یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے گہرے اثرات عورت کے دل سے ہو کر حمل کی حالت میں رہنے والے پیٹ کے بچے پر براہ راست پڑتے ہیں اسی طرح شیر خوار بچہ بھی ان اثرات سے کسی طرح خود کو نہیں بچا سکتا۔ موروثی اثرات کے بعض ماہرین یہاں تک کہتے ہیں کہ ماں اور باپ پر جو حالت یا کیفیت جنسی ملاپ یا (ماں پر) حمل کے دوران طاری ہوتی ہے اس کا تمام تر اثر بچے کی عادت