کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 167
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، الرَّجُلُ یُفْضِیْ إِلٰی امْرَأَتِۃِ وَتُفْضِیْ إِلَیْہِ ثُمَّ یُنْشُرُ سِرَّھَا، وَفِی رِوَایَۃٍ: إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَۃِ أَیْ أَعْظَمِ خِیَانَۃِ الْأَمَانَۃِ، عِنْدَ اللّٰہِ....)) ’’قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سب سے زیادہ بدتر درجے والا (دوسری روایت کے الفاظ ہیں ) امانت میں سب سے زیادہ بڑی خیانت کرنے والا، وہ شخص ہوگا جو اپنی بیوی کے پاس جاتا اور وہ اس کے پاس جاتی ہے (دونوں ہم بستری کرتے ہیں ) پھر وہ شخص اپنی بیوی کی راز کی باتیں پھیلاتا( دوستوں میں بیان کرتا) ہے۔ ‘‘ [1] بیوی کے راز افشا کرنے کا مطلب ہے، ہم بستری کے وقت میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جو پیار محبت کی باتیں کرتے، ایک دوسرے کو جنسی تلذذ پر آمادہ کرنے کے لیے جو حرکتیں کرتے اور اس خصوصی عمل سے جو لذت حاصل کرتے ہیں، ان کیفیات کو بیان کرنا۔ اس کی ممانعت میں کئی حکمتیں ہیں : 1۔ یہ بے حیائی کی باتیں ہیں، ان سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔ 2۔ بیوی کے حسن و جمال اور اس کی ناز نینانہ اداؤں اور محبوبانہ غمزوں اور عشووں کے بیان کرنے میں خطرہ ہے کہ اس کے دوست، یہ باتیں سن کر اس کے رقیب بن جائیں اور اس کی دلربا بیوی سب کے لیے فتنہ اور آزمائش بن جائے۔ 3۔ اوراگر بیوی اس کے برعکس ہو، یعنی خوب رو نہ ہو تو اس کی برائیاں یا اس کے بارے میں ناخوشگوار تأثرات یہ حسن معاشرت کے منافی ہے۔ دوستوں میں ان باتوں کے بیان کرنے کی وجہ سے یہ باتیں دونوں خاندانوں میں بلکہ دوستوں کے گھرانوں میں
[1] صحیح مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم إفشاء سر المرأة، حدیث: 1437