کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 166
19۔ مرد رات کا بیشتر حصہ گھر میں گزارے
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماکی بابت پہلے گزرا کہ وہ ساری رات قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے ان سے فرمایا:
((وَلِأَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا)) [1]
’’تیرے گھر والوں (بیوی) کا بھی تجھ پر حق ہے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قیام اللیل رات کو (اللہ کی عبادت کرنا) بلا شبہ بہت فضیلت والا عمل ہے لیکن رات کو بیوی کے حقوق کو نظر انداز کرکے اگر قیام کیا جائے گا تو یہ پسندیدہ امر نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی مرد راتوں کو اپنا وقت دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں یا اسی طرح کی دیگر سر گرمیوں میں گزارتا ہے اور رات کو دیر سے گھر میں آتا ہے تو یہ بھی بیوی کی حق تلفی ہے اور حسن معاشرت کے بھی منافی ہے۔
حُسنِ معاشرت کا تقاضا ہے کہ مرد سارادن گھر سے باہر گزارنے کے بعد رات کا وقت بیوی کے پاس گزارے اور اس کی دلداری و دلجوئی کا اہتمام کرے۔ سارے دن کی جدائی کے بعد رات کو بھی عورت کو انتظار کے کرب انگیز لمحات گزارنے پر مجبور کرنا کسی لحاظ سے بھی مستحسن اور پسندیدہ نہیں ہے۔
20۔ میاں بیوی کے درمیان راز کی باتیں دوستوں میں بیان نہ کی جائیں
بہت سے نوجوان اپنے دوستوں کی محفل میں تنہائی اور راز کی باتیں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جو ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان ہوتی ہیں، بالخصوص شب زفاف (شادی کی پہلی رات کی) باتیں۔ یہ شرعاً ناپسندیدہ امر ہے اور اس پر سخت وعید وارد ہے۔
[1] السنن الکبریٰ للبیھقی(16:3)