کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 163
زیبائش کا اہتمام کرنے والی ہو۔ اسی طرح عورت کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاوند مردانہ جاہ و جلال اور حسن و جمال کا حامل ہو۔ اس لیے مرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عورت کی اس جائزخواہش کا احترام کرے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ظاہری زیب و زینت اختیار کرنے میں بے اعتنائی نہ برتے۔ جیسے صاف ستھرا رہنا، نظافت و طہارت کا خیال رکھنا، خوشبو وغیرہ کا استعمال اور کنگھی تیل کا اہتمام، وغیرہ، اسی لیے حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلا کام کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ مسواک کرتے تھے۔ (تاکہ منہ سے خوش گوار خوشبو آئے۔ ) تاہم اس زیب و زینت کے اختیار کرنے میں نہ شریعت سے تجاوز ہو اور نہ کبر و غرور کا اظہار ہو، یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ ہیں۔ ‘‘ مثلاً، آج کل زیب و زینت کا معیار یہ ہے کہ مرد کا چہرہ سنتِ رسول (داڑھی) سے پاک ہو، انگریزوں کے لباس (ٹائی، پتلون) میں ملبوس ہو اور بیوٹی پارلر میں جا کر آراستہ و پیراستہ ہو۔ ظاہر بات ہے یہ زیب و زینت اللہ کو ناپسند ہے۔ اسی طرح زیب و زینت کے ڈانڈے کبر و غرور سے نہ جا ملیں۔ بلکہ یہ زیب و زینت ظاہری و باطنی حسن و جمال کا ایسا حسین امتزاج ہو جس میں حُسن صورت بھی ہو اورحُسن سیرت بھی۔ حُسنِ سیرت اور باطنی جمال کے بغیر ظاہری حسن کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جو غبار آلود چہرے پر غازہ پاشی کر لیتا ہے جس سے اس کا چہرہ نکھرنے کے بجائے اور دھندلا جاتا اور کالک زدہ سا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں ظاہری لباس کو وجہ زینت بتلایا ہے تو وہیں لباس تقوی کی