کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 161
اہتمام کرے، بیوی کو نظر انداز کرکے کوئی فیصلہ نہ کرے۔ یہ حسن معاشرت کے بھی خلاف ہے اور عقل و دانش کے بھی منافی۔ عدم مشاورت سے بھی بعض دفعہ میاں بیوی کے درمیان ایسی تلخیاں اور کشیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو پورے گھر کے سکون کو برباد کردیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر تک کو یہ حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے مشاورت کا اہتمام کریں۔ ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ﴾ [آل عمران 159] ’’اور (دین کے) کام میں ان سے مشورہ کیا کیجئے۔ ‘‘ اور مسلمانوں کی صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ وہ اپنے معاملات باہم مشاورت سے چلاتے ہیں۔ ﴿وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ﴾ [ الشوریٰ38] ’’اور ان کے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں ‘‘ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جو معاہدہ لکھا گیا تھا، مسلمان اس کی ظاہری دفعات سے دل گیر تھے اور نبوت کی نگاہِ دور رس میں اس کے جو فوائد تھے، عام مسلمان اس کا اندازہ کرنے سے قاصر تھے۔ بنا بریں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے تحریر کیے جانے کے بعد صحابہ کو حکم دیا کہ اٹھو! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو (کیونکہ اس سال ہم مکہ جا کر عمرہ نہیں کر سکیں گے) لیکن صحابہ غم سے نڈھال اور دل گرفتہ تھے، اس لیے کوئی بھی نہ اٹھا، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اپنی زوجۂ مطہرہ حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور صحابہ کے اس طرز عمل کا ذکر کیا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ آپ کسی کو کچھ نہ کہیں اور جا کر اپنا جانور ذبح کردیں اور اپنا سر منڈالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورے کے مطابق