کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 160
ایک نتیجہ بالعموم ظاہر ہوتا ہے۔ 1۔ یا تو خاوند اور بیوی دونوں، ماں باپ اور ساس سسر کے احترام میں خاموشی سے اس بے انصافی کو برداشت کرتے رہتے ہیں اور عورت طاقت سے زیادہ بوجھ برداشت کرتی رہتی ہے اور گھر کا نظم میاں بیوی کی خاموشی اور بزرگوں کے احترام کی وجہ سے قائم رہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سکون دباؤ کا نتیجہ ہے، حسن معاشرت کا نتیجہ نہیں۔ 2۔ اگر میاں بیوی اس بے انصافی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو جلد یا بہ دیر یہ صورت حال ماں باپ سے علیحدگی پر منتج ہوتی ہے۔ 3۔ گھر کی دوسری خواتین (نندیں، ساس وغیرہ)۔ اگر اس بے انصافی پر مصر رہتی اورسارا بوجھ فرماں بردار بیٹے کی بیوی پر ہی ڈالنے کی پالیسی پر گامزن رہتی ہیں تو جلد ہی پیمانۂ صبر لبریز ہو جائے گا اور پھر آئے دن اس پر باہم تھکا فضیحتی ہوگی جس سے میاں بیوی کا سکون بھی برباد ہوگا، گھر کا امن بھی قائم نہیں رہے گا اور ساس کا بے انصافی پر مبنی یہ رویہ لڑکی کے خاندان کو بھی ان سے بد ظن کردے گا اور مخاصمت و عناد کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی۔ جو دونوں خاندانوں کو مضطرب رکھے گا۔ بنا بریں یہ تینوں ہی صورتیں ظلم و نا انصافی کی ہیں جو حسن معاشرت کے خلاف ہیں۔ یہ ساس بہو کا وہ روایتی کردار ہے جس کی کہانیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ لیکن اہل دین اورخشیت الٰہی رکھنے والوں کو اس قسم کے رویوں سے بچنا چاہیے، ایسا رویہ آخرت ہی برباد کرنے والانہیں ہے بلکہ دنیا بھی بگاڑ دینے والا ہے۔ 17۔ مشاورت کا اہتمام کیا جائے حسن معاشرت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہر اہم معاملے میں مرد بیوی سے مشاورت کا