کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 158
فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَأْکُلُ، وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبَسُ، وَلَا تَکِلِّفُوْھُمْ مَا یَغْلِبُہُمْ، فَإِنْ کَلَّفْتُمُوھُمْ فَأَعِینُوْھمْ)) [1] ’’تمھارے بھائی (غلام) تمہارے ما تحت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمھارے ماتحت کیا ہے (تم کوان پر بالا دستی عطا کی ہے اور ان کو تمھارے زیردست کیاہے) پس جو بھائی (غلام نوکر چاکر) اس کے ما تحت ہو اس کو چاہیے کہ اس کو وہی کچھ کھلائے جووہ کھاتا ہے، اوراس کو وہی کچھ پہننے کو دے جو وہ خود پہنتا ہے اور ایسا کوئی کام اس کے سپرد نہ کرے جو اس کی طاقت سے بالا ہو، اگر تم ایسا کوئی کام اس کے سپرد کرو تو تم ان کی مدد کرو (ان کے ساتھ مل کر وہ کام کرو۔ )‘‘ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اپنے ما تحتوں، زیر دستوں اورغلاموں، نوکروں کو عار دلانا، ان کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہوئے ان کو کھانے پینے میں اپنے ساتھ بٹھانے سے گریز کرنا اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ کاموں کا بوجھ ڈالنا یہ سب ممنوع ہیں تو بیوی توغلام اور ماتحتوں سے زیادہ شرف و فضل اور عزت و احترام کی مستحق ہے، اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے کی اجازت کب ہو سکتی ہے؟ اس لیے حسن معاشرت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بیوی کو عار نہ دلائی جائے۔ اس کے ماں باپ کیسے بھی ہوں یا کیسے بھی کبھی رہے ہوں، یا وہ خود بھی کبھی ایسی ویسی رہی ہو لیکن توبہ کرکے اس نے اپنی اصلاح کر لی ہو اور اب وہ صحیح معنوں میں ایک صالح اور نیک چلن ہو اور اسی وجہ سے اس نے اسے اپنا رفیق زندگی بنانے کے لیے پسند کیا ہو تو اس کے بعد اس کوعار دلانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ حسن معاشرت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں
[1] صحیح البخاري، كتاب الإيمان المعاصى من أمر الجاهلية، حدیث: 30، و صحیح مسلم، كتاب الأيمان، باب إطعام المملوك مما يأكل، حدیث: 1661