کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 156
بری سواری، اور تنگ مکان۔ ‘‘
یعنی مذکورہ چیزیں کسی کے لیے سعادت کا اور کسی کے لیے شقاوت کا ذریعہ ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور اس کے قضا و قدر کے تحت ہے۔
اسی لیے بعض شارحین نے حدیث شؤم کی شرح میں لکھاہے، جیسے امام خطابی ہیں :
((اِنْ کَانَتْ لِأَحَدِکُمْ دَارٌ یَکْرَہُ سُکْنَاھَا أَوْ امْرَأَۃٌ یَکْرَہُ صُحْبَتَہَا، أَوْ فَرَسٌ یَکرَہُ سَیْرَہُ فَلْیُفَارِقْہُ)) [1]
’’اگر کسی کا گھر ایسا ہے کہ اس میں رہائش اس کو ناپسند ہو، یا بیوی ایسی ہو کہ اس کے ساتھ گزارا مشکل ہو، یا گھوڑا ایسا ہو کہ اس پر سفر اس کو ناگوار ہو، تو وہ ان کو چھوڑ دے۔ ‘‘
اور بعض نے اس کی تفسیر اس طرح کی ہے:
((إِنَّ شُؤْمَ الدَّارِ ضَیِّقُہَا وَسُوْءَ جَوَارِھَا، وَشُؤْمَ الْمَرأَۃِ أَنْ لَا تَلِدَ وُشُؤْمَ الْفَرَسِ اَنْ لَا یُغْزُ عَلَیْہِ)) [2]
’’گھر کی نحوست اس کا تنگ ہونا اورپڑوسی کا برا ہوناہے، عورت کی نحوست اس کا بانجھ پن اور گھوڑے کی نحوست اس پر جہاد کرنے کا موقع نہ ملنا ہے۔ ‘‘
بعض آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسے حضرت معمر (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کی یہ تفسیر سنی ہے (بظاہر یہی ہے کہ کسی صحابی سے سنی ہوگی)۔
((شُؤْمُ الْمَرْأَۃِ إِذَا کَانَتْ غَیْرَ وَلُودٍ، وَشُؤُمُ الْفَرَسِ إِذَا لَمْ یُغُزَ عَلَیْہِ وَ شُؤُمُ الدَّارِ جَارُ السُّوءِ)) [3]
[1] فتح الباري، الجہاد، (6؍77)
[2] حوالۂ مذکور
[3] فتح الباری، (6؍77)، مصنف عبدالرزاق، (10؍ 411)، رقم الحدیث: 19527