کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 154
’’ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں ر ہتے ہیں، وہاں گھر کے افراد بھی کافی ہوتے ہیں اور مال و دولت کی بھی فروانی ہوتی ہے، لیکن ہم گھر بدل لیتے ہیں تو وہاں ہمارے افراد اوراموال میں کمی ہوجاتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس گھر کو اپنے حق میں برا سمجھتے ہوئے چھوڑ دو۔ ‘‘ [1] اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس تصور کی نفی کی گئی ہے کہ کوئی بیماری متعدی بھی ہوتی ہے بلکہ اس عقیدے کی تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کسی کو کوئی بیماری نہیں لگ سکتی۔ اس کے باوجود ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مجذوم (کوڑھی کے مریض) سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ نہیں کہ جذام کا مرض متعدی ہے بلکہ اس کی وجہ اعتقاد کی خرابی سے بچانا ہے۔ کیونکہ اگر کسی شخص کو مجذوم کے پاس بیٹھنے سے اگر جذام کی بیماری لاحق ہوگئی تو اس کی اصل وجہ تو اللہ کا حکم او راس کی مشیت ہوگی لیکن اس شخص کے اندر عقیدے کی یہ خرابی پیدا ہوسکتی ہے کہ مجھے یہ بیماری اس مریض کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے۔ یہ عقیدہ چونکہ اسلامی مسلّمات کے خلاف ہے اس لیے مسلمانوں کے عقیدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے احتیاط کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس بد عقیدگی سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اسی طرح عدم موافقت کی صورت میں زیر بحث مذکورہ اشیاء کو چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اس رد و بدل میں ان کی نحوست کاعقیدہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کو قضا و قدر کا فیصلہ ہی سمجھاجائے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث (لوگوں کی رائے کے برعکس) اس مفہوم کی تائید کرتی ہے کہ کسی چیز
[1] سنن أبي داود، كتاب الطب، باب في الطيرة، حدیث: 3924