کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 153
اس حدیث سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ جو عورت فتنے کا باعث ہو، اس میں تو شر اور نحوست کا پہلو ہوسکتا ہے لیکن جو عورت ایسی نہ ہو بلکہ اس کے برعکس نیکی اور صالحیت کا پیکر ہو، تو اسے منحوس کیسے قرار دیا جا سکتا ہے اس کی طرف کسی تقدیری امر کے ظہور کی وجہ سے شر اور نحوست کو منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسے حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہ کہنا کفر ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔ یعنی بارش برسانے کے فعل کو اللہ کے بجائے ستارے کی طرف منسوب کرنا، یکسر غلط بلکہ کفریہ کلمہ ہے تو پھر مطلقاً عورت کو شر اورنحوست کا باعث قرار دینا کیوں کر صحیح ہے؟ جب کہ اس شر کے ظہور میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ ایک تقدیری معاملہ ہے جس کا ظہور اس عورت کے نئے گھر میں آنے کے بعد ہوا ہے۔ اور قضا و قدر کے فیصلے کا اس کے ساتھ توافق ہوگیا ہے۔
عدم موافقت ہوسکتی ہے لیکن صرف اللہ کی مشیت سے
یہ تو ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انسان گھر خریدتا یا کرائے پر لیتا ہے، سواری کے لیے کوئی جانور، یا آج کل کے حساب سے کوئی گاڑی وغیرہ لیتا ہے، اسی طرح کسی عورت سے شادی کرتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں انسان کو راس نہیں آتیں، اس کو مسلسل نقصان اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو یہ تو اجازت ہے کہ عدم موافقت کی وجہ سے گھر چھوڑ کر، جانور یا گاڑی بیچ کر، بیوی کو طلاق دے کر وہ متبادل انتظام کر لے لیکن ان کا تعلق نحوست سے جوڑ کر بد اعتقادی کا اظہار نہ کرے بلکہ اس کو قضا و قدر کا فیصلہ سمجھے۔ اس بارے میں بھی ایک حدیث سے ہمیں کافی رہنمائی ملتی ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :