کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 151
لیکن ہمارے معاشرے میں عجلت سے فیصلہ کرنے کا مرض عام ہے دلہن کے آنے کے بعد اگر اتفاقی طور پر کوئی حادثہ ہوجاتا ہے، یعنی کارو بار میں کچھ نقصان ہوجاتا ہے یا کوئی اور ارضی و سماوی آفت آجاتی ہے تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ نئی عورت جو ہمارے گھر میں آئی ہے، اس کی نحوست ہے اور پھر گھر کے سارے افراد اس کو منحوس باور کر لیتے ہیں۔ ظاہر بات ہے ایسا سمجھنا اور کہنا جہاں تقدیر الٰہی کے خلاف ہے جو کہ کمال ایمان کے منافی ہے، وہاں حسن معاشرت کے بھی خلاف ہے۔ قدرتی حوادث و آفات کا باعث عورت کو قرار دینا، جب کہ اس میں اس کے ارادے یا عمل کا کوئی دخل نہیں، یکسر خلاف واقعہ اور ایک پاک دامن کو نحوست سے مُتّہم کرنا ہے اور جب اس کو منحوس سمجھ لیاجائے گا تو کون اسے اچھا سمجھے گا یا اس سے اچھا سلوک کرے گا؟ اس لیے حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ اتفاقی حوادث وواقعات کی بنیاد پر عورت کو یا کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا بے بنیاد بات ہے۔ نحوست کے تصور کی بنیاد در اصل یہ تصور ایک حدیث سے غلط فہمی کے طور پر مشہور ہوگیا ہے، وہ حدیث ہے: ((الشُّؤْمُ فِی ثَلَاثَۃٍ، فِی الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَۃِ، وَالدَّارِ)) ’’نحوست تین چیزوں میں ہے، گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔ ‘‘ حالانکہ ایک دوسری حدیث سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے، وہ حسب ذیل ہے: ((إِنْ کَانَ الشُّؤْمُ فِی شَئْیٍ، فَفِی الدَّارِ، وَالْمَرْأَۃِ، وَالْفَرَسِ)) [1] ’’اگر کسی چیز میں نحوست ہوسکتی ہے تو وہ گھر ہے، اور عورت ہے، اور گھوڑا ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب ما يبقى من شؤم المرأة، حدیث: 5094,5093