کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 150
فرمائی ہے: ﴿غَیْرَ مُبَرِّحٍ﴾ ایسی مار جس سے شدید چوٹ نہ آئے۔ ‘‘ [1] اور یہی وہ تفسیر ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث گزری ہے۔ بہر حال مقصود اس تفصیل سے یہ ہے کہ ہلکی مار مارنے کی اجازت ایک خاص حکمت کے تحت دی گئی ہے کہ بعض عورتوں کے لیے بعض دفعہ یہ علاج مؤثر ہوتا ہے لیکن جو لوگ حقِّ طلاق کی طرح اس کو بھی غلط استعمال کرتے ہیں تو یہ سخت ناپسندیدہ ہے اور ایسے لوگ اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ بہتر بھی نہیں ہیں اور عقل و دانش سے بھی بے بہرہ ہیں کہ مارتے بھی ہیں اور پھر اسی سے اپنی خواہش بھی پوری کرتے ہیں۔ 14۔ عورت کو منحوس سمجھنا غلط ہے حسن معاشرت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ عورت کو منحوس نہ سمجھا جائے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب عورت نئی نویلی دلہن کی صورت میں آتی ہے تو چونکہ وہ یکسر ایک نئے ماحول میں آتی ہے، دولہا سمیت اس گھر کے سارے افراد اس کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، اس کو اس نئے ماحول سے مانوس ہونے میں اور دولہا اور اس کے گھر والوں کے مزاجوں کو سمجھنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح دلھن بھی تمام افراد خانہ کے لیے اجنبی ہوتی ہے، اس کی خوبیاں (یا برائیاں ) ظاہر ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ چند ایام یا چند ہفتوں میں ایک دوسرے کی بابت اچھا یا برا ہونے کا نہ صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے اور نہ فیصلہ ہی۔
[1] صحیح البخاري، كتاب النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، حدیث: 5204