کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 149
چنانچہ صحابۂ کرام بڑے محتاط ہوگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاوندوں کے مقابلے میں ان کی جسارتیں بڑھ گئیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نتیجے سے آگاہ فرمایا تو آپ نے ان کو مارنے کی رخصت عنایت فرما دی۔ بعض صحابہ نے اس رخصت کا غلط استعمال کیا تو بہت سی عورتوں نے آکر ازواج مطہرات کے پاس ان کی شکایتیں کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ طَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ کَثِیرٌ یَشْکُونَ أَزْوَاجَہُنَّ لَیْسَ أُولٰئِکَ بِخِیارِکُمْ)) [1] ’’آل محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس بہت سی عورتوں نے آ کر اپنے خاوندوں کی شکایت کی ہے، یہ لوگ تم میں بہتر نہیں ہیں۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ رخصت بے رحمانہ طریقے سے مارنے کی نہیں ہے اور جو ایسا کرے گا وہ بہتر لوگوں میں شمار نہیں ہوگا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کی بڑے حکیمانہ انداز میں وضاحت فرمائی: ((لَا یَجْلِدُ أَحَدُکُمْ إِمْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِی آخِرِ الْیَوْمِ)) ’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے، (کیونکہ یہ عجیب بات ہوگی کہ اس طرح مارنے کے بعد) پھر دن کے آخر میں اس سے ہم بستری کرے گا۔ ‘‘ اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے: ((بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاء)) ’’اس بات کا بیان کہ عورتوں کو مارنا ناپسندیدہ (مکروہ) ہے۔ ‘‘ اور قرآن کریم میں مارنے کی رخصت ﴿واضربوھن﴾ کی تفسیر ان الفاظ میں
[1] سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب فى ضرب النساء، حدیث: 2146