کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 147
مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر طلاق دے دیتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں لیکن اگر عورت کو بھی حق طلاق مل جاتا تو پھر طلاق کی شرح کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
عورت کو مارنے کی رخصت اور اس کی حکمت اور مطلب
جس طرح بعض مرد جہالت کی وجہ سے عورت کے حقوق صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے، تو اس میں اسلام کا تو کوئی قصور نہیں، ان مردوں کا قصور ہے جو اسلام کے عطا کردہ بعض مردانہ امتیازی حقوق کا، جو نہایت حکمت پر مبنی ہیں، غلط استعمال کرتے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، انھی میں سے یہ طلاق کا بھی حق ہے جسے بعض مرد نہایت غلط طریقے سے استعمال کرتے اور اپنا گھر اجاڑ لیتے ہیں جس کا خمیازہ عورت کے علاوہ ان کو بھی بھگتنا پڑتا ہے، بچے ہوں تو ان کو بھی۔
یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے نشوز (عورت کی نافرمانی، سرکشی) کی صورت میں مرد کو اس کو سمجھانے کے لیے وعظ و نصیحت کرنے، اس سے بستر سے علیحدگی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے کی بھی اجازت ہے۔
﴿وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ﴾ [النسآء 34]
’’ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو (پھر بھی نہ سمجھیں تو) انہیں مارو۔ ‘‘
تو یہ حق بھی گھر کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ہے کیونکہ گھر کا قوّام (حاکم) مرد ہی ہے جس طرح کسی ملک یا علاقے کے قوّام (سربراہ یا حاکم مجاز) کو ملک یا علاقے کا نظم و نسق برقرا ر رکھنے کے لیے سختی کرنی پڑتی ہے، دار و گیر سے کام لینا پڑتا ہے اور سرکشوں کے سرِپُر غرور کو کچلنے کے لیے ان کو زدو کوب بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مرد کو بھی عورت کو راہ