کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 146
طاقت ختم نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کی وجہ وہ تخلیقی مقاصد ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے اور مرد کا دائرۂ کار گھر سے باہر (بیرونِ دَر) کے امور ہیں۔ جن میں امور جہاں بانی، جہاد اور کسب معاش وغیرہ ہیں، عورت ان تمام ذمے داریوں سے سبکدوش ہے۔ اسی میں عورت کی عزت بھی ہے اور اس کی عصمت و تقدس کا تحفظ بھی۔ عورت کو وراثت میں حصے دار بنانا، اس میں بھی عورت کی عزت و احترام کی بحالی ہے جس سے عورت اسلام سے قبل محروم تھی، ورنہ عورت کی جو ذمے داریاں ہیں، ان میں اس کو بالعموم مال کی ضرورت نہیں ہوتی، مال کی زیادہ ضرورت مرد ہی کو رہتی ہے، اسی نے کاروبار کرنا ہے، عورت کی معاشی کفالت اسی نے کرنی ہے، حق مہر بھی اسی نے ادا کرنا ہے، ولیمہ بھی کرنا اور دیگر شادی کے اخراجات ہیں جو مرد ہی نے برداشت کرنے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ذمے داری عورت پر نہیں ہے۔ اس لیے اس کو وراثت میں مرد کے دوگنا کے مقابلے میں ایک گنا حصے دار قرار دینا، اس کی عزت و احترام ہی کے پیش نظر ہے ورنہ اس کو مال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مرد کو طلاق و رجوع کا حق دینے میں بھی بڑی حکمت ہے اور وہ ہے گھر کو بربادی سے بچانا، عورت مرد کے مقابلے میں کم حوصلہ بھی ہے اور جذباتی بھی۔ اگر اس کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو اختلاف و نزاع کی صورت میں وہ فوراً طلاق دے کر اپنے پیروں پر کلھاڑی مار لیا کرتی اور خانماں برباد ہوجایا کرتی۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ حوصلہ و ہمت سے نوازا ہے اس لیے وہ زیادہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتا اور گھر بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔ اگرچہ بعض مرد جہالت اور بے شعوری کی وجہ سے صبرو تحمل کے بجائے عجلت اور عاقبت نا اندیشی کا