کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 144
یعنی بہ حیثیت انسان ہونے کے مرد اور عورت دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں جن کو پورے کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں۔ نہ عورت، مرد کو انسانیت سے ماورا مقام کا حامل سمجھے کہ اس سے ایسے مطالبات کرے جن کا پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا ہو اور نہ مرد عورت کو انسانی شرف و تکریم سے عاری مخلوق سمجھے کہ اس کے ساتھ جس طرح کا چاہے غیر انسانی سلوک کرکے اس کی عزت ووقار کو مجروح یا اس کے حقوق کو پامال کرے۔ دونوں کو شریعت کے دائرے میں ر ہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں جو شریعت نے بتلائے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ گھر کا نظام چلانے کے لیے مرد و عورت میں سے مرد کو قوّام و حاکم اور عورت کو محکوم بنایا گیا ہے کیونکہ دونوں کو یکساں طور پر اگر حاکمیت کا حق دیا جاتا تو گھر کا نظام چل ہی نہیں سکتا تھا، جیسے ایک ملک میں ایک کے بجائے دو حکمران مساوی طور پر با اختیار ہوں تو نظم مملکت قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ نظم ایک ہی با اختیار حکمران کے ذریعے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اسی قوّامیت میں یہ بھی شامل ہے کہ مرد فطری قوتوں میں، جہاد کی اجازت میں، میراث کے دوگنا ہونے میں اور حقِ طلاق و رجوع (وغیرہ) میں عورت سے ممتاز ہے۔ یہی ایک گونہ وہ فضیلت ہے جو اللہ نے مرد کو عطا کی ہے جس کو قرآن کریم میں ’’ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ ایک گونہ فضیلت یا امتیاز چونکہ ناگزیر تھا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَسَْٔلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ [النساء32]
’’اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں