کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 143
ماں ہے تو اس کی باپ سے بھی زیادہ خدمت کرو، بیٹی ہے تو نازو نعمت سے اس کی پرورش کرو اور اس کی آرزؤں اور خواہشوں کے مطابق اس کا جیون ساتھی تلاش کرکے اس کے ساتھ اس کا نکاح کردو۔ بہن ہے تو اس کے ساتھ بھی بیٹیوں کی طرح حسن سلوک کرو اور بیوی ہے تو اس کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھو اور اس کی تمام ضروریات گھر بیٹھے پوری کرو اور اس کے آرام و راحت کا ہرسامان مہیا کرو۔ اس کو اپنی کسی بھی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر کسی دفتر، کارخانے یا فیکٹری میں کام کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کو اس کی شرعاً اجازت ہے۔ سوائے سخت مجبوری کے۔ 13۔ عورت بھی بہ حیثیت انسان کے مرد کے برابر ہے عورت کے بارے میں اسلام سے قبل عرب کے لوگ ہی جاہلی تصورات نہیں رکھتے تھے جس کی بنا پر عرب معاشرے میں عورت عزت ووقار سے محروم تھی بلکہ عجم میں بھی عورت کی کوئی قدر و منزلت نہیں تھی، اس کو پیروں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دی جاتی تھی، یا کہاجاتا تھا کہ اس کو مردوں کی غلامی اور چاکری کے لیے پیدا کیا گیا ہے یا وہ شیطان کی ایک آلۂ کار ہے جس سے شیطان انسانوں کو گمراہ کرنے کا کام لیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسلام نے ان تصورات کا خاتمہ کرکے اس کو عزت ووقار کا ایک نہایت اعلیٰ مقام عطا فرمایا اور اس کو بہ حیثیت انسان ہونے کے اس کی بعض امتیازی چیزں سے قطع نظر مردوں کے مساوی قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ﴾ [البقرۃ228] ’’اور ان عورتوں کا (حق خاوندوں پر) اسی طرح ہے (جس طرح خاوندوں کا حق) ان عورتوں پر ہے اور ان مردوں کو ان پر کچھ فضیلت ہے۔ ‘‘