کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 142
مایوسیوں میں امیدوں کا مرکز اور تاریکیوں میں روشنی کا منبع ہوتا ہے۔ مغرب میں عورت کی ذلت و خواری اس کے برعکس مغرب میں عورت گرل فرینڈ ہے یا کسی افسر کی سٹینوگرافر یا سیکرٹری، کسی دفتر کی کلرک ہے یا کسی کارخانے کی ورکر (مزدور) ریسپشن گرل (استقبال کرنے والی چھوکری ہے) یا ائیر ہوسٹس (فضائی میزبان، جہازوں کے مسافروں کی خدمت کرنے والی اور ان کے دلوں کو لبھانے والی) یا ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی اور اپنے افسر ڈاکٹروں کی ناز برداری کرنے والی نرس۔ ہوٹلوں میں گاہکوں کو چائے اور شراب مہیا کرنے پر مامور اور ان کی نگاہ ہوس کا شکار بننے والی خادمہ۔ بلکہ بہت سے شراب خانوں میں ٹاپ لیس سروس پر مجبور، جس میں عورت کو اپنے جسم کا بالائی حصہ عریاں رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کی عریانی سے مردوں کی ہوس کی تسکین ہوسکے۔ مغرب کی یہ عورت اول تو نکاح سے پہلے ہی مردوں سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں بن بیاہی ماں بن جاتی ہے اورشادی کے بعد بھی یہ ڈانس کلبوں میں غیروں کی باہوں میں جھومتی اور جھولتی ہے۔ اس کو کبھی نہ گھر کی ملکہ کا اعزاز حاصل ہوتا ہے اور نہ معاشرے میں وہ عزت و مقام جو اسلام نے عورت کو عطا کیا ہے۔ اس کے لیے ذلت ہی ذلت ہے اور قدم قدم پر مردوں کی غلامی و محکومی، ایک شوہر کی غلامی، جس میں اس کا مکمل احترام ہے، اس کو قید لگتی ہے اور بے شمارہوس زدہ مردوں کی غلامی، جس میں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں، آزادی۔ یہ ہے وہ آزادیٔ نسواں جس کا مغرب علم بردار ہے۔ اسلام نے عورت کو ان تمام ذلتوں سے بچا کر مرد کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ اگر وہ