کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 140
قرار دیا۔ اس کی توجیہہ میں شارحین حدیث نے فرمایا ہے کہ ماں کے زیادہ استحقاق کی تین وجوہ ہیں۔
1۔ نو مہینے تک حمل کی تکلیف برداشت کرنا۔
2۔ وضع حمل (زچگی، ڈلیوری) کے مرحلے سے گزرنا جو عورت کے لیے موت و حیات کا ایک نہایت سنگین مرحلہ ہوتا ہے۔
3۔ پھر دو سال تک رضاعت (بچے کو دودھ پلانا) راتوں کو اس کے لیے اٹھناا اور اس کی ضروریات اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا جب کہ وہ بول کر اپنی حاجت اور تکلیف بیان نہیں کر سکتا۔
ان تینوں مراحل کی جاں گداز تکلیفوں میں مرد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، صرف ماں کا جذبۂ شفقت، جسے مامتا کہا جاتا ہے، اسے ان تکلیفوں کو برداشت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ ہنسی خوشی ان ذمے داریوں کو ادا کرتی ہے۔
بیوی گھر کی ملکہ اور گھر کی زینت ہے
اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر فطری طور پر ایسے اوصاف رکھے ہیں، جو مردوں سے مختلف ہیں، ان اوصاف کی وجہ سے وہ مذکورہ تینوں مشقتیں برداشت کر لیتی ہے، مرد عورت سے زیادہ قوت وطاقت کا مالک ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ مشقتیں اس کے لیے ناقابل برداشت ہیں، اس لیے مرد کی سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ وہ عورت کی ان مشقتوں پر ہمدردی سے غور کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو کبھی عورت کسے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ نہیں کرے گا۔