کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 14
نہ ہوجائے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں مرد وعورت اور ان کے مابین تعلقات چاہے وہ نکاح، طلاق، خلع، رضاعت الغرض کسی بھی شکل میں ہوں ایک ایک کی وضاحت کردی ہے اور تعلیمات دے دی ہیں۔ جو عین عدل ہیں۔ لیکن چند منحرف الطبع لوگوں اور مغرب کے خوشہ چینوں نے ان تعلیمات کو مبنی بر ظلم قرار دیا اور آزادئ نسواں کے نام سے تحریکیں چلا کر اخلاقیات، اقدار واطوار اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا۔ عورت کی آزادی کے نام پر اخلاقی بے راہ روی اور مادرپدر آزادی کے خوب وسائل پیدا کیے گئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج چار سالہ معصوم بچی بھی درندگی سے محفوظ نہیں رہی۔ یہ تحریکیں محض مغرب تک محصور نہیں رہیں بلکہ اسلامی ملکوں میں ان کی بھرپور آبیاری کی گئی، مالی وسائل فراہم کیے گئے اور اب یہ تحریکیں اسلامی ممالک میں ایک تنا ور درخت بن چکی ہیں۔ آج کیفیت یہ ہے کہ تقریباً تمام اسلامی ممالک اس تباہ کن اورہلاکت خیز فتنے کی زد میں آکر 'آزادئ نسواں کا راگ الاپنے میں مشغول ہوگئے ہیں۔ آزادی نسواں کے نام سے عریانی وفحاشی کا گندا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آزادی اور مساوات کے نام سے مغرب نے ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے جس میں عورت ایک بکاؤ ما ل بن کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے اسے چادر وچار دیواری سے نکال کر چوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے۔
مغربی تھنک ٹینک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عورت کو بگاڑ دو تو باقی معاشرہ ازخود زمین بوس ہوجائے گا اس لیے انہوں نے نہایت آسان ہدف تلاش کرکے اس پر کام کیا اور ایک حد تک وہ اپنے اس گھناؤنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اب یہ ان کی لگائی ہوئی آگ ایسی بھڑکی ہے کہ ان کے قابو سے بھی باہرہو چکی ہے۔ عورت کی معاشرتی اور سماجی حیثیت واہمیت کا اہل مغرب کے ادراک کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ اقوام متحدہ جو ایک