کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 138
ہے۔ یہ رخصت اسی لیے ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں تعلقات زن و شو ہر قائم کرنے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ عبادت میں بھی ایسا غلو (زیادتی) نا پسندیدہ ہے جس سے عورت کی حق تلفی ہواور وہ مقصد پورا نہ ہو جس کے لیے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، عورت ساری رات خاوند کی منتظر رہے اور میاں صاحب ساری رات نوافل اور عبادت میں گزار دیا کریں۔ حتی کہ عورت دن کے اوقات میں اس بات کی خواہش مند ہو لیکن عابد وزاہد خاوند کا دن بھی نفلی روزے میں گزرے اور وہ اس کو مستقل معمول بنالے اور عورت کو گل دستۂ طاقِ نسیاں بنا دے۔ اسلام میں ایسے زہد اور عبادت کی اجازت نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ پہلے گزر چکا ہے کہ وہ زیادہ عبادت و زہد کے اسی شوق میں بیوی کا حق ادا نہیں کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے ان کو بلا کر پوچھا: کیا تم رات کو قیام کرتے ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو، کیا بات ایسے ہی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح مت کرو، روزہ بھی رکھو اور روزہ چھوڑ بھی دیا کرو۔ رات کو قیام بھی کرو اور سویا بھی کرو۔ اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ ‘‘ [1]
بہر حال حسن معاشرت کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو دیگر آسائشیں اور راحتیں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی جنسی آسودگی کا بھی مکمل اہتمام ہو۔ حتیٰ کہ اگر آدمی اس میں کمزوری محسو س کرے تو اس کے لیے ڈاکٹر یا حکیم کے مشورے سے مقویات
[1] صحیح البخاري، كتاب النكاح، باب لزوجك عليك حق، حدیث: 5199