کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 136
1۔ اس کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کے ذریعے سے اس کی دلجوئی و دل داری کا اہتمام کرتا رہے (جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع ملتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے، ان کو حبشیوں کے جنگی کرتب دکھا کر ان کی تفریح طبع کا سامان کرتے، ان کو گڑیوں اور چھوٹی بچیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کرتے، وغیرہ وغیرہ)۔
اسی لیے ایک حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپ نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَ اللَّھْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ، تَادِیبُ الرَّجُلِ فَرَسَہُ، وَمُلَاعَبَتُہُ أَھْلَہُ وَرَمْیَہُ بِقَوْسِہٖ)) [1]
’’کھیل تین ہی ہیں۔ انسان کا اپنے گھوڑے کو سدھانا (جنگ کے لیے تیار کرنا) دوسرا، اس کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، (ہنسی مذاق اور دل لگی کرنا) تیسرا، اس کا اپنے تیر کمان سے تیر پھینکنے کی مشق کرنا۔ ‘‘
ان میں سے دو کھیلوں کا تعلق تو جنگی تیاریوں سے ہے جس سے مقصود مسلمانوں کو ہمہ وقت جہاد کے لیے تیار رکھنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے بامقصد کھیلوں کے علاوہ دوسرے تمام کھیل ناجائز ہیں کیونکہ ان میں وقت کا بھی ضیاع ہے اور وسائل کا بھی ضیاع۔ البتہ ان کے علاوہ بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق کو بھی ایک جائز کھیل تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ اس کا بھی ایک نہایت اہم فائدہ ہے اور وہ ہے گھریلو زندگی کا خوش گوار ہونا، اس لیے شریعت نے اس کی بھی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثِیبّہ (شوہر دیدہ عورت، مطلقہ یا بیوہ) کے مقابلے میں کنواری عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی وجہ بھی یہ بیان فرمائی ہے
[1] سنن أبي داود، كتاب الجهاد، باب فى الرمى، حدیث: 2513