کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 135
اپنی جوتی بھی گانٹھ لیتے تھے۔ ‘‘ یعنی ہر کام اہلیہ ہی کے سپرد نہ کرتے، بلکہ چھوٹے موٹے کام خود بھی کر لیتے اور اس کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے، جیسے آج کل کے مردوں کا شیوہ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے پیغمبر اتنی عظمت و شان کے باوجود بہت سے گھریلو امور خود ہی انجام دے لیا کرتے تھے اور اس میں کسر شان نہیں سمجھتے تھے، تو آپ کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت ہے؟ اس اسوۂ رسول کو اپنانے میں، جس میں معاشرتی زندگی کا حسن پیدا ہوتا ہے، ہم کیوں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں؟ 11۔ محبت کا بھرپور اظہار حسن معاشرت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ جس طرح عورت کو یہ تاکیدی حکم ہے کہ مرد اس کو جب بھی اپنے پاس (خلوت میں ) بلائے، وہ جس حالت میں بھی ہو، اس کی تعمیل کرے تاکہ مرد ادھر ادھر منہ نہ مارتا پھرے۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عورت کے ساتھ بھرپور محبت کا اظہار کرے۔ عورت کے اندر فطری طور پر شرم و حیا کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، سوائے چند شہوت زدہ عورتوں کے۔ اس لیے وہ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے بہت کم مرد کے سامنے پہل کرتی ہے۔ عموماً مرد ہی پہل کرتا اور اس کو اس کام کے لیے بلاتا اور آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ ازخود بھرپور محبت کا اظہار کرے تاکہ اس کے اندر کوئی تشنگی نہ رہے اور وہ کسی اور کی طرف دیکھنے پر مجبور نہ ہو۔ اس کے لیے اس کو دو طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔