کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 133
آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
((أَللّٰھمَّ ھٰذَا قَسْمِی فِیمَا أَمْلِکُ، فَلَا تَلُمْنِي فِیمَا تَمْلِکُ وَلَا أَمْلِکُ)) [1]
’’یا اللہ! جن چیزوں میں میرا اختیار ہے، ان میں میں نے یہ باریاں مقرر کر رکھی ہیں۔ پس تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ کرنا جس پر تیرا ہی اختیار ہے، میں اس میں بے اختیار ہوں۔ ‘‘
زیادہ بیویوں والے خاوند کے لیے خطرناک امر جو ہے، وہ یہ ہے کہ کسی ایک بیوی کی محبت، دوسری بیویوں کی حق تلفی کا باعث بن جائے اور وہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلقہ بنا کر رکھ دے، نہ ان کو طلاق دے کر آزاد کرے اور نہ ان کے حقوق ادا کرے۔
اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی زیادہ بیویاں رکھنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے:
﴿وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النساء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ﴾ [ النساء129]
’’ اور تم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ تم اپنی بیویوں میں ہر طرح سے عدل کرو، خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش رکھو، لہٰذا تم کسی ایک ہی کی طرف پوری طرح مائل نہ ہو جاؤ کہ دوسری کو بیچ میں لٹکتی چھوڑدو۔ ‘‘
بہر حال عورت کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔ ایک بیوی ہو تب بھی، ایک سے زیادہ ہو تب بھی۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا ایک بہت بڑی آزمائش ہے، بہتر ہے آدمی اس آزمائش میں نہ پڑے۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری بیوی ناگزیر ہو تو اس رخصت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ لیکن اس شرعی رخصت سے صرف دنیوی فائدہ ہی نہ اٹھائے، آخرت کی باز پرس کا بھی خیال رکھے جہاں وہی
[1] سنن أبي داود، کتاب النکاح، باب فی القسم بین النساء، حدیث: 2134