کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 132
گویا ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت مشروط ہے عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگر یہ شرط پوری نہیں کر سکتے تو دوسری عورت سے نکاح کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ظاہر بات ہے کہ فطری طور پر خاوند کا دلی میلان کسی ایک کی طرف زیادہ ہوگا، یہ دل کا معاملہ ہے جس پر کسی کا اختیار نہیں ہے، لیکن کسی ایک بیوی کی محبت کا دل میں زیادہ ہونا یہ قابل گرفت ہے نہ عدل کے خلاف، بشرطیکہ یہ زیادہ محبت اس کو عدل و انصاف کے تقاضوں سے نہ روکے۔ عدل و انصاف اور مساوات کے حکم کی رو سے خاوند تمام بیویوں کے ساتھ لباس، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی میں ان کے درمیان امتیاز نہیں کرتا، سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا اور سب کو ایک سی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے خصوصی تعلقات کی ادائیگی میں بھی مساوات کا اہتمام کرتا ہے۔ سب کے پاس باری باری جاتا ہے، کسی کی باری پر اس کو محروم کرکے دوسری کے پاس نہیں جاتا۔ اس کے اس ظاہری انصاف سے عدل و مساوات کے وہ تقاضے یقیناً پورے ہوجاتے ہیں۔ جو شرعاً مطلوب ہیں، چاہے اس کے دل میں کسی ایک بیوی کی محبت زیادہ ہی ہو۔ لیکن محبت کی اس زیادتی نے اس کو دوسری بیوی یا بیویوں کی حق تلفی پر مجبور نہیں کیا تو پھر یہ زیادتیٔ محبت عند اللہ مذموم نہیں ہوگی کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے اور دل میں سب بیویوں کی محبت یکساں نہیں ہوسکتی، تو جو چیز انسان کے اختیار سے باہر ہو، اس پر عندا للہ مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی تمام ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ پیار تھا، اس لئے آپ نے اگرچہ باریاں بھی مقرر فرما رکھی تھیں (جس کی آپ پوری پابندی فرماتے تھے۔ ) اور عدل کا بھی پورا اہتمام فرما تے تھے: لیکن چونکہ دل میں محبت ایک بیوی کی زیادہ تھی، اس لیے