کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 131
گھمبیر ہے لیکن اگر بیوی سُگَّھڑیعنی سلیقہ مند ہو اور وہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کے اصول کو اپنائے رکھے، اسی طرح گھر کے بڑے بھی بہو کو بیٹی والا پیار اور شفقت دیں، نندیں اس کو اپنی بہن والی حیثیت دیں۔ نیز خاوند بھی نہایت سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کے ساتھ سب کو اپنے اپنے مقام پر رکھتے ہوئے سب کے حقوق کا خیال رکھے، نہ بڑوں کے کہنے پر بیوی کے حقوق میں کوتاہی کرے اور نہ بیوی کی محبت میں والدین کے ادب و احترام یا ان کے حقوق میں کوتاہی کرے، تو وہ گھر روایتی جھگڑوں سے محفوظ اور جنت نظیر بن جاتا ہے اور ایسا تب ہی ہوتا ہے جب خاوند سمیت چھوٹے بڑے سب حسن معاشرت (اچھے رویے) کا اہتمام کریں۔ دوسرا اہم موقع عدل و انصاف کرنے کا وہ ہے جب ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں، دو ہوں یا تین یا چار۔ ایسی صورت میں خاوند کے لیے عدل و انصاف کرنا پل صراط سے گزرنے کی طرح نہایت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن شریعت نے جہاں کسی معقول ضرورت کی وجہ سے ایک سے زیادہ چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے (نہ کہ حکم) وہاں دوسری طرف ان کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات کا بھی بڑی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے، بصورت دیگر ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً ﴾ [ النساء3] ’’اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارا کرو۔ ‘‘