کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 129
اسلام نے اس ظلم کا سد باب کرنے کے لیے ایسی طلاق کی، جس کے بعد عدت کے اندر رجوع جائز ہے، تعداد مقرر فرمادی کہ وہ صرف دو مرتبہ ہے۔ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ﴾ [البقرۃ229:2] یعنی زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ طلاق دے کر (عدت کے اندر) رجوع کیا جا سکتا ہے، دو مرتبہ حق طلاق استعمال کرنے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی جائے گی تو رجوع اور صلح کا حق ختم، اور ہمیشہ کے لیے جدائی، ’’ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ‘‘۔
دوسری نصیحت مسلمانوں کو یہ فرمائی گئی کہ طلاق دینے کے بعد اگر رجوع اور صلح کی ضرورت ہو (جس کا اللہ نے دو مرتبہ موقع عطا فرمایا ہے) تو اس رجوع کا مقصد عورت کو تنگ کرنا، اس کو نقصان پہنچانا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنا نہ ہو بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ اس کو آباد کرنا ہو۔
﴿وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا ﴾ [البقرۃ231]
’’(طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے سے قبل اگر تم ان کو روکو یعنی صلح کر لو) تو تم ان کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو تاکہ تم ان سے زیادتی کرو اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ یقیناً اپنے آپ ہی پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیتوں کو ہنسی مذاق نہ بناؤ‘‘
کتنی سخت وعید ہے کہ ایسے مردوں کے لیے جو طلاق دے کر رجوع تو کر لیں لیکن بیوی کے حقوق ادا نہ کریں اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ جاری رکھیں۔ یہ ان کا اپنے نفس پر بھی ظلم ہے (کہ اس کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں )۔ اور اللہ کے احکام کے ساتھ استہزاء و مذاق بھی ہے اور اس پر بھی وہ اللہ کی سزا کے مستوجب قرار پا سکتے ہیں۔