کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 128
سے ایک مہینہ یا دو مہینے (مثال کے طور پر) تعلق نہیں رکھو ں گا۔ پھر قسم کی مدت پوری کرکے تعلق قائم کر لیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں۔ ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے یا مدت کے تعین کے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لیے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کر لیں یا پھر اسے طلاق دے دیں۔ (اسے چار مہینے سے زیادہ معلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے) پہلی صورت میں (تعلق قائم کرنے) میں اسے کفارۂ قسم ادا کرنا ہوگا۔ اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اس کو دونوں میں سے کسی ایک بات کو اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے۔ تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔‘‘[1] اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام میں عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کا بائیکاٹ کرکے اس کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ عورت پر ظلم ہے۔ اگر غصے یا ناراضی میں خاوند ایسی کوئی بات کر بیٹھے تو اس کو زیادہ طول نہ دے بلکہ اس کو جلد از جلد ختم کرکے اپنا تعلق بحال کرلے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ایک متعینہ مدت کے بعد بذریعۂ عدالت عورت کو اس ظلم سے نجات دلوائی جائے گی۔ ٭ایک ظلم زمانۂ جاہلیت میں عورتوں پر یہ کیا جاتا تھا کہ نہ ان کو صحیح طریقے سے آباد کیا جاتا تھا اور نہ طلاق دے کر ان کو آزاد کیا جاتا تھا، مرد عورت کو طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے قبل رجوع کر لیتا، اور جس عورت کو تنگ کرنا اور اس کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھنا مقصود ہوتا تو وہ عمر بھر اسی طرح طلاق دے دے کر رجوع کرتا رہتا۔
[1] تفسیر احسن البیان، طبع دارالسلام، لاہور، بحوالہ تفسیر ابن کثیر