کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 127
٭لڑکیوں کی مسلسل پیدائش پر، جس میں مرد کی طرح وہ بھی بے اختیارہے، طلاق کی دھمکی دینا، یا اس کو اچھا نہ سمجھنا، اس کی بے عزتی کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ لڑکے یا لڑکیاں دینا، یہ مکمل طور پر اللہ کے اختیار میں ہے، کسی انسان کی خواہش یا کوشش کا اس میں دخل نہیں۔ اس کے باوجود صرف عورت ہی کو اس کا ذمے دار ٹھہرا کر اس کو طعن و تشنیع کا اور ظلم و زیادتی کا ہدف (نشانہ) بنانا حماقت بھی ہے اور ظلم کا ارتکاب بھی۔ ٭ایک ظلم یہ بھی ہے کہ مرد بعض دفعہ ناراض ہو کر بیوی سے بول چال بند کردیتا ہے، یا اس سے جنسی تعلق قائم نہیں کرتا، یا اس کے اور بعض حقوق ادا نہیں کرتا، یا اس کی بابت قسم کھا لیتا ہے۔ ظاہر بات ہے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے خاوند کی یہ بے رخی یا بائیکاٹ عورت کے لیے ناقابل برداشت ہے، شریعت اس ظلم کی کس طرح اجازت دے سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت قرآن مجید میں فرمایا ہے: ﴿لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاىِٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ فَاِنْ فَاءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ O وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴾ ’’جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے، اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے اور اگر وہ طلاق کا عزم کر لیں تو اللہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘(البقرۃ2: 226، 227) اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں قطع تعلقی کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین فرما دیا ہے، اور وہ چار مہینے ہے، اس کے اندر اندر وہ اپنا تعلق بحال کرلے ورنہ اس کے بعد اس کو طلاق دینی ہوگی۔ اس آیت کی تفسیر حسب ذیل ہے: ’’ایلاء‘‘ کے معنی قسم کھانے کے ہیں، یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھالے کہ میں اپنی بیوی