کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 126
8۔ بیوی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ نہ کرے
عورت خلقی اور جسمانی اعتبار سے مرد سے کمزور ہے، اسی لیے اسے صنف نازک سے تعبیر کیا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ قواریر (آبگینے) قرار دیا ہے۔ آبگینہ(شیشہ) بھی نہایت نازک ہوتا ہے۔ [1]
مرد اس کے مقابلے میں قوی الجثہ بھی ہے اور زیادہ ذہنی و دماغی صلاحیتوں کا حامل بھی۔ اسی لیے گھر کی قوامیت (حاکمیت) اسی کو عطا کی گئی ہے کیونکہ حاکمیت کے لیے قوت و طاقت بھی ضروری ہے اور ذہنی و دماغی صلاحیتوں کی فراوانی بھی۔ لیکن اس طاقت کا مطلب، کمزوروں پر دست درازی کرنا نہیں ہے بلکہ صبرو ضبط کا مظاہرہ اور رحم و کرم کا معاملہ کرنا ہے۔
مردوں کی ایک معتدبہ تعداد اپنی اس خداد داد طاقت کا غلط استعمال کرتی اور عورتوں پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی ہے حالانکہ ظلم و زیادتی کا ارتکاب حسن معاشرت کے منافی ہے جب کہ حکم بیوی کے ساتھ حسن معاشرت (اچھا سلوک کرنے) کا ہے۔
ظلم کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً:
٭اس کے نان ونفقہ، یعنی ضروریات زندگی مہیا کرنے میں کوتاہی کرنا۔
٭اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عورت پر ناروا پابندیاں لگانا، جیسے تو اپنے میکے نہیں جا سکتی، فلاں سے میل ملاپ نہیں رکھ سکتی، اس طرح کی دیگر پابندیاں جن کا شرعاً جواز نہ ہو۔
[1] صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب ما یجوز من الشعر والرجز والحداء و ما یکرہ منہ، حدیث: 6149